امراض قلب کے اسپتال میں 78 کروڑکی کرپشن ،ذمہ دار کون؟

تحریر:شاہد عباسی

مریضوں سے وصول شدہ 3کروڑ 76لاکھ روپے بینک میں جمع نہیں ہوئے، بلاضرورت 7کروڑ روپے کی مشنری خریدی گئی

ملک کے سب سے بڑے امراض قلب کے اسپتال قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں 78 کروڑ روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہواہے جن کی نشاندہی مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ میں ظاہر ہوئی ہے۔انتظامیہ کے موقف کے برعکس ذرائع کے مطابق رفیقی شہید روڈ پر واقع قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) جوکہ خود مختار اور وفاقی وزارت صحت کے ماتحت کام کرنے والا ادارہ ہے ۔1963ءمیںامراض قلب کے علاج،بڑھتے ہوئے مریضوں پر قابو پانے اور مرض کا شکار افراد کو بہتر طبی سہولیات کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاءمیں اپنی نوعیت کے پہلے ادارے کا اعزاز رکھنے والا یہ طبی مرکز اگرچہ سالانہ بنیادوں پر حکومت سے گرانٹ حاصل کرتا ہے لیکن اس کے ناکافی ہونے کی وجہ سے یہ اپنے اخراجات موصول ہونے والے عطیات،انڈومنٹ فنڈ اورمریضوں کی جانب سے ادا کی جانے والی رقم کے ذریعے پورا کرتا ہے۔امراض قلب سے وابستہ ہونے اور یہاں موجود انفراسٹرکچر کے پیش نظریومیہ بنیادوں پر صرف او پی ڈی میں 15 سو سے 2000مریض رپورٹ ہوتے ہیں اگرچہ یہاں آنے والے مریضوں کو کم خرچ میں قابل ڈاکٹرز اور فوری طور پر معیاری طبی امداد مہیا کی جاتی ہے جو مریضوں کا اعتماد سمیٹنے کے ساتھ انہیں سہولیات مہیا کرنے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم اس میں کرپشن کے متعلق کی گئی نشاندہی اب شاید اس اعتماد کو مجروح کر دے۔ مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ کے مطابق ادارے میں 78 کروڑ روپے سے زائد وصول کی جانے والی فیس میں تین کروڑ 76لاکھ روپے سے زائد کی خورد برد ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ رقم وصول تو کی گئی ہے تا ہم بینک میں جمع ہی نہیں کروائی گئی۔

آڈٹ رپورٹ کا اسکین

دوسری جانب اسپتال کی انتظامیہ نے ادارے کے قریب واقع نیشنل بینک کارڈیو برانچ میں ایل سی کھول کر میسرز اسحاق کارپوریشن کے ذریعے مختلف مشینری اور آلات درآمد کئے جن پر 9کروڑ53لاکھ روپے سے زائد کی ادائیگی ظاہر کی گئی ہے لیکن اس کے لئے وفاقی وزارت صحت اور وفاقی وزارت فنانس سے فارن ایکسچینج کی منظوری نہیں لی گئی اور نہ ہی اس خریداری کے حوالے سے متعلقہ دستاویزات موجود ہیں۔ ان دو معاملات کے ساتھ ہسپتال کے موجود انفراسٹرکچر کے حوالے سے یہ بات بھی آڈٹ رپورٹ کا حصہ بنائی گئی ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے نیشنل بینک کو 42 ہزار روپے ماہانہ پر برانچ کھولنے کی جگہ کرائے پر دی جو مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق کینٹین ٹھیکوں میں مخصوص افراد کو نوازا گیا۔ کیفے ٹیریا میسرز سلیم کارپوریشن کا ماہانہ 42ہزار روپے کرائے پر دیا گیا لیکن ٹھیکیدار سے بجلی اور گیس کے بلز وصول نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ادارے کو 9لاکھ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اسپتال کے لئے ضرورت سے قبل ہی 7کروڑ روپے سے زائد کی مشینری اور آلات کی خریداری بھی کی گئی۔ضرورت سے قبل کے لفظ کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ مشینری ہے جس کے استعمال کی نوبت بھی نہیں آئی اور جن اداروں سے وہ خڑیدی گئی ہے ان کی جانب سے دی گئی وارنٹی مذکور آلات کے استعمال سے قبل ہی پوری ہوگئی ہے۔
ادارے سے وابستہ ذرائع کے مطابق این آئی سی وی ڈی کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں 500 سو سے 700سو مریض روزانہ آتے ہیں جن میں سے 80سے 90 مریضوں کو روزانہ داخل کیا جاتاہے۔یہ اعدادوشمار انتطامیہ کی جانب سے تسلیم بھی کئے جاتے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق دوران آڈٹ متعلقہ افراد کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اسپتال نے مریضوں کو علاج کی مد میں جمع کرائی گئی رقم میں سے ایک کروڑ روپے سے زائد واپس کردیئے جس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی جبکہ رقم واپس لینے والے مریضوں کی فہرست کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں متعدد مریضوں کے نام کئی بار لکھے ہوئے ہیں۔ نیشنل بینک میںقومی ادارہ امراض قلب کے اکاﺅنٹ میں انتظامیہ نے عطیہ کے طور پر ملنے والے 27لاکھ روپے قانونی طور پرجمع رکھے ہوئے ہیںتاہم رقم کو فنانشل ایڈوائزر اور بجٹ تخمینے میں بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔


رپورٹ کے مطابق میسرز زیم سکیورٹی کو سکیورٹی گارڈز فراہم کرنے کی مد میں 7لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے۔ جب کہ اسپتال ریکارڈ کے مطابق این آئی سی وی ڈی کے پاس اپنے 47سکیورٹی گارڈ ز اور ایک سیکورٹی آفیسر ملازم ہے ان ملازمین کی تنخواہوں اور الاﺅنسز پر ہر سال 36لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ کی جارہی ہے۔
انتظامیہ نے افسران ،ڈاکٹرز اور دیگر ملازمین کو کارڈیو کے اندر رہائشی سہولت دے رکھی ہے لیکن آڈٹ کے دوران پتہ چلاکہ ایسے افسران ،ڈاکٹرز اور ملازمین کی اکثریٹ ہاﺅس رینٹ الاﺅنسز بھی لے رہے ہیں۔اسپتال میں رہائش پذیر بیشتر افسران ،ڈاکٹرز اور ملازمین نے بجلی کے بلز بھی ادا نہیں کئے ۔مختلف کمپنیوں سے ای سی جی اور آلات جراحی کی خریداری کی گئی جس کے لئے ایک کروڑ 41لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے لیکن اس خریداری کی تصدیق نہیں ہوسکی۔


فنانس ڈویژن کے مطابق لاءچارجز کی ادائیگی   کے لئے وزارت قانون سے پیشگی منظوری ضروری ہے لیکن منظوری کے بغیر مختلف وکلاءکو  لیگل چارجز کی مد میں 6لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے آڈٹ رپورٹ کے مطابق گزٹ آف پاکستان کے مطابق پروفیسر کا عہدہ 20گریڈ کاہے سیلری شیٹ سے پتہ چلاکہ اس وقت کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گریڈ 22میں تھے۔اس گریڈ کی کوئی پوسٹ نہ ہونے کے باوجود وہ کام کرتے رہے۔قانون کے مطابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کو گریڈ 17تک تقرریوں کا اختیار ہے لیکن انہوںنے قانون کے برخلاف گریڈ18میں ایک خاتون ڈاکٹر کو بھرتی کیا اور بعد میں انہیں اگلے گریڈ میں ترقی بھی دے دی گئی۔مختلف گریڈ کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو پیشہ وارانہ فیس کے نام پر غیر قانونی طور پر ایک کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی گی۔ مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ تقریبا6ماہ قبل وزارت صحت کے متعلقہ حکام کو بھیجی جاچکی ہے لیکن ذرائع کے مطابق اب تک اس خورد برد کے ذمہ داران کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی گئی جوکہ افسوس ناک عمل ہے۔
این آئی سی وی ڈی کی اہمیت کے حا مل ادارے کی آڈٹ رپورٹ میں کی گئی نشاندہی کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونا اور متعلقہ ذمہ داران کو کھلی چھوٹ دئے رکھنے کے متعلق ذرائع کا کہناہے کہ جب تک وفاقی محکمہ صحت کی ملی بھگت نہ ہواتنی گھناﺅنی کرپشن کے ذمہ داران کا بچے رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔واضح رہے کہ حالیہ بجٹ میں شعبہ صحت کے لئے مختص کی گئی رقم کے ناکافی ہو نے پر یہ جواب دیا گیا تھاکہ حکومت طبی اداروں کو بتدریج بہتر کرنے کے لئے لانگ ٹرم منصوبے پر عملدرآمد کی خواہاں ہے اس وقتی خامی پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔لیکن ایک خودمختار طبی ادارے کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ سب محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو تھا ورنہ حکومت اور محکمہ صحت اپنی سابقہ روش کو ہی برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔
حکومتی سطح پر کی جانے والی کرپشن اور اس کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ بدنام زمانہ کیری لوگر بل میں امریکہ کی جانب سے شعبہ صحت کی بہتری کے لئے دی جانے والی امداد بھی یہ کہہ کر روک لی گئی تھی کہ محکمہ میں کرپشن کے باعث امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم خوردبرد کی نظر ہو جانے کا خدشہ ہے۔لہذا یہ محکمہ صحت کے حکام کو منتقل کرنے کے بجائے ان کی جانب سے دی گئی تجاویز کا جائزہ لے کر امریکی نگرانی میں امدادی اداروں کے ذریعے خرچ کی جائے گی۔
این آئی سی وی ڈی میں کرپشن،آڈٹ رپورٹ میں اس کی نشاندہی پرموقف جاننے کے لئے اسپتال کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر خان شاہ زمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کرپشن ناممکن ہے۔

NICVD کیا ہے؟
قومی ادارہ امرض قلب 360بیڈڈاسپتال ہے جہاں400سے زائد بستر مریضوں کے لئے دستیاب ہیں۔تین میڈیکل،ایک سرجیکل،ایک پیڈیاٹرک،تین کارنری کئیر ،ایک سرجیکل آئی سی یواور28بستروں پر مشتمل شعبہ حادثات کے ساتھ ملک بھر سے لائے جانے والے مریضوں کو خدمات مہیا کرتا ہے۔اگر چہ راولپنڈی میں فوج کے زیر اہتمام قائم کارڈیک سینٹر کے قیام کے بعد سے اندرون ملک اورکراچی میں ایک اور کارڈیک سینٹر کے قیام سے مقامی مریضوں کا دباﺅ کسی حد تک کم ہوا ہے لیکن بڑی تعداد اب بھی یہیں آتی ہے۔جس کا ثبوت ادارے کی جانب سے سالانہ ۳ہزار انجیوگرافیز اور۵سو سے زائد کارنیو انجیوپلاسٹیز ہیں۔

<strong> تحریر:شاہد عباسی</strong>

<strong>مریضوں سے وصول شدہ 3کروڑ 76لاکھ روپے بینک میں جمع نہیں ہوئے، بلاضرورت 7کروڑ روپے کی مشنری خریدی گئی

</strong>

ملک کے سب سے بڑے امراض قلب کے اسپتال قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں 78 کروڑ روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہواہے جن کی نشاندہی مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ میں ظاہر ہوئی ہے۔انتظامیہ کے موقف کے برعکس ذرائع کے مطابق رفیقی شہید روڈ پر واقع قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) جوکہ خود مختار اور وفاقی وزارت صحت کے ماتحت کام کرنے والا ادارہ ہے ۔1963ءمیںامراض قلب کے علاج،بڑھتے ہوئے مریضوں پر قابو پانے اور مرض کا شکار افراد کو بہتر طبی سہولیات کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاءمیں اپنی نوعیت کے پہلے ادارے کا اعزاز رکھنے والا یہ ادارہ اگرچہ سالانہ بنیادوں پر حکومت سے گرانٹ حاصل کرتا ہے لیکن اس کے ناکافی ہونے کی وجہ سے یہ اپنے اخراجات موصول ہونے والے عطیات،انڈومنٹ فنڈ اورمریضوں کی جانب سے ادا کی جانے والی رقم کے ذریعے پورا کرتا ہے۔امراض قلب سے وابستہ ہونے اور یہاں موجود انفراسٹرکچر کے پیش نظریومیہ بنیادوں پر صرف او پی ڈی میں 15 سو سے 2000مریض رپورٹ ہوتے ہیں اگرچہ یہاں آنے والے مریضوں کو کم خرچ میں قابل ڈاکٹرز اور فوری طور پر معیاری طبی امداد مہیا کی جاتی ہے جو مریضوں کا اعتماد سمیٹنے کے ساتھ انہیں سہولیات مہیا کرنے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ تاہم اس میں کرپشن کے متعلق کی گئی نشاندہی اب شاید اس اعتماد کو مجروح کر دے۔ مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ کے مطابق ادارے میں 78 کروڑ روپے سے زائد وصول کی جانے والی فیس میں تین کروڑ 76لاکھ روپے سے زائد کی خورد برد ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ رقم وصول تو کی گئی ہے تا ہم بینک میں جمع ہی نہیں کروائی گئی۔

<img src=”https://saherenoo.files.wordpress.com/2010/07/scan-2-001.jpg?w=217″ alt=”” title=”آڈٹ رپورٹ کا اسکین” width=”217″ height=”300″ class=”size-medium wp-image-170″ /></a>

دوسری جانب اسپتال کی انتظامیہ نے ادارے کے قریب واقع نیشنل بینک کارڈیو برانچ میں ایل سی کھول کر میسرز اسحاق کارپوریشن کے ذریعے مختلف مشینری اور آلات درآمد کئے جن پر 9کروڑ53لاکھ روپے سے زائد کی ادائیگی ظاہر کی گئی ہے لیکن اس کے لئے وفاقی وزارت صحت اور وفاقی وزارت فنانس سے فارن ایکسچینج کی منظوری نہیں لی گئی اور نہ ہی اس خریداری کے حوالے سے متعلقہ دستاویزات موجود ہیں۔ ان دو معاملات کے ساتھ ہسپتال کے موجود انفراسٹرکچر کے حوالے سے یہ بات بھی آڈٹ رپورٹ کا حصہ بنائی گئی ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے نیشنل بینک کو 42 ہزار روپے ماہانہ پر برانچ کھولنے کی جگہ کرائے پر دی جو مارکیٹ ریٹ سے بہت کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق کینٹین ٹھیکوں میں مخصوص افراد کو نوازا گیا۔ کیفے ٹیریا میسرز سلیم کارپوریشن کا ماہانہ 42ہزار روپے کرائے پر دیا گیا لیکن ٹھیکیدار سے بجلی اور گیس کے بلز وصول نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے ادارے کو 9لاکھ روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اسپتال کے لئے ضرورت سے قبل ہی 7کروڑ روپے سے زائد کی مشینری اور آلات کی خریداری بھی کی گئی۔ضرورت سے قبل کے لفظ کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ وہ مشینری ہے جس کے استعمال کی نوبت بھی نہیں آئی اور جن اداروں سے وہ خڑیدی گئی ہے ان کی جانب سے دی گئی وارنٹی مذکور آلات کے استعمال سے قبل ہی پوری ہوگئی ہے۔

ادارے سے وابستہ ذرائع کے مطابق این آئی سی وی ڈی کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ میں 500 سو سے 700سو مریض روزانہ آتے ہیں جن میں سے 80سے 90 مریضوں کو روزانہ داخل کیا جاتاہے۔یہ اعدادوشمار انتطامیہ کی جانب سے تسلیم بھی کئے جاتے ہیں۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق دوران آڈٹ متعلقہ افراد کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اسپتال نے مریضوں کو علاج کی مد میں جمع کرائی گئی رقم میں سے ایک کروڑ روپے سے زائد واپس کردیئے جس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی جبکہ رقم واپس لینے والے مریضوں کی فہرست کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہواکہ اس میں متعدد مریضوں کے نام کئی بار لکھے ہوئے ہیں۔ نیشنل بینک میںقومی ادارہ امراض قلب کے اکاﺅنٹ میں انتظامیہ نے عطیہ کے طور پر ملنے والے 27لاکھ روپے قانونی طور پرجمع رکھے ہوئے ہیںتاہم رقم کو فنانشل ایڈوائزر اور بجٹ تخمینے میں بھی ظاہر نہیں کیا گیا۔


رپورٹ کے مطابق میسرز زیم سکیورٹی کو سکیورٹی گارڈز فراہم کرنے کی مد میں 7لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے۔ جب کہ اسپتال ریکارڈ کے مطابق این آئی سی وی ڈی کے پاس اپنے 47سکیورٹی گارڈ ز اور ایک سیکورٹی آفیسر ملازم ہے ان ملازمین کی تنخواہوں اور الاﺅنسز پر ہر سال 36لاکھ روپے سے زائد رقم خرچ کی جارہی ہے۔

انتظامیہ نے افسران ،ڈاکٹرز اور دیگر ملازمین کو کارڈیو کے اندر رہائشی سہولت دے رکھی ہے لیکن آڈٹ کے دوران پتہ چلاکہ ایسے افسران ،ڈاکٹرز اور ملازمین کی اکثریٹ ہاﺅس رینٹ الاﺅنسز بھی لے رہے ہیں۔اسپتال میں رہائش پذیر بیشتر افسران ،ڈاکٹرز اور ملازمین نے بجلی کے بلز بھی ادا نہیں کئے ۔مختلف کمپنیوں سے ای سی جی اور آلات جراحی کی خریداری کی گئی جس کے لئے ایک کروڑ 41لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے لیکن اس خریداری کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

<img src=”https://saherenoo.files.wordpress.com/2010/07/scan-9-001.jpg?w=217″ alt=”” title=”Scan 9 001″ width=”217″ height=”300″ class=”alignright size-medium wp-image-177″ />

فنانس ڈویژن کے مطابق لاءچارجز کی ادائیگی کے لئے وزارت قانون سے پیشگی منظوری ضروری ہے لیکن منظوری کے بغیر مختلف وکلاءکو لیگل چارجز کی مد میں 6لاکھ روپے سے زائد ادا کئے گئے آڈٹ رپورٹ کے مطابق گزٹ آف پاکستان کے مطابق پروفیسر کا عہدہ 20گریڈ کاہے سیلری شیٹ سے پتہ چلاکہ اس وقت کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گریڈ 22میں تھے۔اس گریڈ کی کوئی پوسٹ نہ ہونے کے باوجود وہ کام کرتے رہے۔قانون کے مطابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کو گریڈ 17تک تقرریوں کا اختیار ہے لیکن انہوںنے قانون کے برخلاف گریڈ18میں ایک خاتون ڈاکٹر کو بھرتی کیا اور بعد میں انہیں اگلے گریڈ میں ترقی بھی دے دی گئی۔مختلف گریڈ کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کو پیشہ وارانہ فیس کے نام پر غیر قانونی طور پر ایک کروڑ روپے سے زائد رقم ادا کی گی۔ مالی سال 2007ءاور 2008ءکی آڈٹ رپورٹ تقریبا6ماہ قبل وزارت صحت کے متعلقہ حکام کو بھیجی جاچکی ہے لیکن ذرائع کے مطابق اب تک اس خورد برد کے ذمہ داران کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی گئی جوکہ افسوس ناک عمل ہے۔

این آئی سی وی ڈی کی اہمیت کے حا مل ادارے کی آڈٹ رپورٹ میں کی گئی نشاندہی کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی نہ ہونا اور متعلقہ ذمہ داران کو کھلی چھوٹ دئے رکھنے کے متعلق ذرائع کا کہناہے کہ جب تک وفاقی محکمہ صحت کی ملی بھگت نہ ہواتنی گھناﺅنی کرپشن کے ذمہ داران کا بچے رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔واضح رہے کہ حالیہ بجٹ میں شعبہ صحت کے لئے مختص کی گئی رقم کے ناکافی ہو نے پر یہ جواب دیا گیا تھاکہ حکومت طبی اداروں کو بتدریج بہتر کرنے کے لئے لانگ ٹرم منصوبے پر عملدرآمد کی خواہاں ہے اس وقتی خامی پر جلد قابو پا لیا جائے گا۔لیکن ایک خودمختار طبی ادارے کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ سب محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کو تھا ورنہ حکومت اور محکمہ صحت اپنی سابقہ روش کو ہی برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔

حکومتی سطح پر کی جانے والی کرپشن اور اس کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ بدنام زمانہ کیری لوگر بل میں امریکہ کی جانب سے شعبہ صحت کی بہتری کے لئے دی جانے والی امداد بھی یہ کہہ کر روک لی گئی تھی کہ محکمہ میں کرپشن کے باعث امریکی ٹیکس دہندگان کی رقم خوردبرد کی نظر ہو جانے کا خدشہ ہے۔لہذا یہ محکمہ صحت کے حکام کو منتقل کرنے کے بجائے ان کی جانب سے دی گئی تجاویز کا جائزہ لے کر امریکی نگرانی میں امدادی اداروں کے ذریعے خرچ کی جائے گی۔

این آئی سی وی ڈی میں کرپشن،آڈٹ رپورٹ میں اس کی نشاندہی پرموقف جاننے کے لئے اسپتال کے موجودہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر خان شاہ زمان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی کرپشن ناممکن ہے۔

NICVDکیا ہے؟

قومی ادارہ امرض قلب 360بیڈڈاسپتال ہے جہاں400سے زائد بستر مریضوں کے لئے دستیاب ہیں۔تین میڈیکل،ایک سرجیکل،ایک پیڈیاٹرک،تین کارنری کئیر ،ایک سرجیکل آئی سی یواور28بستروں پر مشتمل شعبہ حادثات کے ساتھ ملک بھر سے لائے جانے والے مریضوں کو خدمات مہیا کرتا ہے۔اگر چہ راولپنڈی میں فوج کے زیر اہتمام قائم کاردیک سینٹر کے قیام کے بعد سے اندرون ملک اورکراچی میں ایک اور کارڈیک سینٹر کے قیام سے مقامی مریضوں کا دباﺅ کسی حد تک کم ہوا ہے لیکن بڑی تعداد اب بھی یہیں آتی ہے۔جس کا ثبوت ادارے کی جانب سے سالانہ ۳ہزار انجیوگرافیز اور۵سو سے زائد کارنیو انجیوپلاسٹیز ہیں۔

4 responses to this post.

  1. brother SHAHID.lateef
    app ka kam our ye mazmon buht jamay hai is main buht gahraee sy mozon main mojood khurd burdh ko by naqab kia gea hai ALLAH kry zor e qalam o fahm zida ………….. thanks app ki dua ka talb gar

    aqib ali
    03337164478

    جواب دیں

  2. afsos ka maqam hai ke sarkar ki janib se nishandahi ke bawajod courruption pr qabo pana na mumkin ha

    جواب دیں

    • Dear Hussaini Rehman sb
      comments ka shukria.
      afsos ka maqam to hai lekan jab chukidar hi ghar ka khayal na rakhe to chor se gila kase kia jaey.umeed hai ap samajh gaey hoan gen.mustaqbal main bhi apni nigarshat jari rakheay ga.
      shahid abbasi

      جواب دیں

Leave a reply to saherenoo جواب منسوخ کریں